لیلۃ النصف من شعبان
حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ
مسلم شریف کی روایت ہے
اللہ نے مجھ سے پہلے کسی بھی امت میں نبی نہیں بھیجا
مگر اس سے کچھ نہ کچھ حواری یا اصحاب تو ہوتے تھے
وہ حواری اور صحابہ اپنے نبی کی سنت کو پکڑ لیتے تھے
اور ان کے احکام کی پیروی کرتے تھے
ہمیشہ ایسا ہوا ہے کہ بعد میں کچھ ایسے نہ خلق اٹھے
وہ کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جسکا حکم نہیں ہوتا تھا
ویسے ہی جیسے اب ہمارے معاشرے میں عرس منائے جاتے ہیں عید میلاد النبی, عید کے طور پر عوام منانے لگے ہیں
اس منانا اس میں اللہ کا کوئی حکم ہے
کیا صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا کبھی عرس بنایا
کیا یہ حضور کے صحابہ کا عمل ہے
اپنے ہی ایجاد کردہ روایات ہے
یہ اپنی ہی ایجاد کردہ بدعات ہے
اپنے ہی ایجاد کردہ رسومات ہے
ان کے عمل میں نہ اللہ کی اطاعت ہے نہ رسول کی اتباع
تو جو بھی مسلمان جہاد کرے گا اپنے ہاتھ سے اپنی طاقت سے وہ مومن ہوگا
اور جو جہاد کرے گا اپنی زبان سے وہ بھی مومن ہوگا
اور جو دل سے نفرت رکھے گا وہ بھی مومن ہوگا
اس کے بعد ایمان تو رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے
رسول اللہ صلی وسلم کی حیات میں 40 سال بعد نبوت ملی 23 سال نبوت رہی اس میں یہ مہینہ بار بار آئے
اس میں خصوصا آپ نے کسی صحابہ کو جمع کرکے ان باتوں کا حکم نہیں دیا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا
لوگوں میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ایک اللہ کا قرآن ہے اور دوسری میری سنت( حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم).
ایک لاکھ چوالیس ہزار صحابہ رضی اللہ عنہ حجۃ الوداع کے موقع پر موجود تھے
آپ نے سب کو مخاطب کرکے فرمایا
کیا میں نے مکمل دین پہنچا دیا
سب نے کہا جی ہاں إِ آپ نے پہنچا دیا
رسول نے اللہ تعالی کو بھی گواہ بنایا کہ ہاں میں نے اللہ کا دین مکمل پہنچا دیا
,اگر اس دین میں یہ حکم دیا جائے کہ آپ نے روزہ رکھنا ہیں اور رات بھر عبادت کرنی ہے ایک خاص رات اہتمام کے ساتھ
سجدے کا حکم صرف اللہ تعالی کو ہے
نماز میں دو سجدے فرض کر دیے گئے ہیں سجدہ ابو بیت کو ظاہر کرتا ہے
آپ ثواب کی نیت سے تین سجدے نہیں کر سکتے
کیونکہ یہ اللہ تعالی کے دین اور محمد کی کی سنت میں سے نہیں ہے
اسی طرح آپ روایات کے تحت اپنے دین میں کوئی نئی چیز ثواب کی نیت سے آپ داخل نہیں کر سکتے
وہ انسان اپنے آپ کو ہمیشہ راہراست سے دور رکھے گا جو قرآن اور سنت سے احراز کرتا ہے
قرآن نے اس بات کو ثابت کر دیا گیا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل کیا گیا ہے
ہم نے قرآن کو نازل کیا لیلۃ القدر میں
ہم نے قرآن کو نازل کیا برکت والی رات میں
کیا اللہ تعالی نے قرآن کو نصف شعبان کی رات میں نازل کیا
دو جگہ اس مضمون کو اللہ تعالی نے واضح کیا ہے قرآن پاک میں
سورۃ دخان وفي سورة القدر
سورۃ دخان اور سورہ قدر میں
یعنی برکتوں والی رات شعبان یا رجب میں نہیں بلکہ رمضان میں موجود ہے
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ(۳)
ترجمہ: کنزالایمان
بےشک ہم نے اُسے برکت والی رات میں اُتارا بےشک ہم ڈر سنانے والے ہیں
4
فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)
ترجمہ: کنزالعرفاناس
رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ترجمہ: کنزالایمان
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا
1
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ(۱)
ترجمہ: کنزالایمان
بے شک ہم نے اسے شب قدر میں اتارا
2
وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲)
ترجمہ: کنزالایمان
اور تم نے کیا جانا کیا شب قدر
3
لَیْلَةُ الْقَدْرِ ﳔ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ(۳)
ترجمہ:
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر
4
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ(۴)
ترجمہ:
اس میں فرشتے اور جبریل اترتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے
5
سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵)
ترجمہ:
وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک
اور غلط گمان کر لیا جائے کہ آج کی رات اللہ تعالی آسمانوں پر عرش سے نزول فرمائیں گے اور جو جاگ رہا ہوگا اسکو کو برات مل جائے گی
اُسکے گناہ معاف کردیئے جائیں گےتو ہر رات جب تہائی حصہ رہ جاتا ہے
صحیح بخاری اورصحیح مسلم کی روایت ہے کہ
رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ارشاد فرمایا
ہر رات جب تہائی حصہ رہ جاتا ہے
تو تمہارا رب آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے
اور پوچھتا ہے, کہ ہے کوئی جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں
کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے کہ میں اسے عطا کرو
کوئی ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اسے بخش دوں
یہ سلسلہ جاری رہتا ہے حضرت کے طلوع آفتاب نہ ہو جائے
اور سورہ قدر میں اللہ تعالی نے واضح لفظوں میں بیان کردیا کہ وہ لیلۃ القدر کی رات ہے
قرآن نازل ہوا تو یہ دلیل کے لحاظ سے کمزور ہے
قرآن پاک آسمان دنیا پر لیلۃ نصف الشعبان کی رات نازل نازل ہوا اور اس کا نزول لیلۃ قدر سے ہونا شروع ہوا
اس تاویل کی ضرورت ہی نہیں ہے
کیوں کہ جب دو صحیح حدیث ٹکرا رہی ہو
جب قرآن کے مقابلے میں کوئی صحیح حدیث بھی نہیں ہے
فقہاءہ کے مطابق
اگر صحیح حدیثیں بھی متواتر ہو تو قرآن میں تاویل نہیں کی جائے گی
لیکن اس موضوع پر کوئی صحیح حدیث بھی نہیں ہے بلکہ کمزور حدیث ہے
اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کونہ پایا
آپ اچانک بقیع قبرستان تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں اندیشہ تھا
کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کریں گے
آپ نے عرض کیا اللہ کے رسول میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور وہ اس رات کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے
ترمذی ابن ماجہ نے یہ اضافہ نقل کیا ہے اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو معاف مغفرت نہیں کرتا جو جہنم کے مستحق ہو
امام ترمذی نے فرمایا میں نے محمد یعنی امام بخاری کو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا ہے
اس رات کی فضیلت پر ایک بھی صحیح حدیث نہیں ہیں لیکن کمزور حدیثوں کی تعداد بہت زیادہ ہے
محدثین کا اصول ہے جب سند حدیث زیادہ ہو جائیں تو وہ قابل قبول ہو جاتی ہے
ہمارے طبقے میں دو دو وصورتیں دیکھی جاتی ہے کہ کچھ اسے بالکل نہیں مانتے اور کچھ اسے بہت زیادہ شدت پہ مانتے ہیں
جمہور اس بات پر ہے کہ اس رات کی کچھ فضیلت موجود ہے
امام شافعی اس کے رحمت کے قائل ہیں
اور وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ روایات ضعیف ہے
اور وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ یہ روایات ضعیف ہے
امام ابو حنیفہ کی کوئی رائے اس معاملے پر موجود نہیں ہیں
جو علماء اس بات کا بالکل منکر ہے ان کی رائے کے مطابق
شیخ البانی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں
جب تم سنت کو زندہ کرو گے تو بدعات ختم ہو جائیں گی اور جب تم بدعت کو زندہ کرو گے تو لوگ سنت سے بچیں گے۔
ایم- اے ایف سلیم
Mashallah very informative I like your writing style.
ReplyDelete