Jawab e Shikwa Dr. Allama Iqbal with Urdu Translation (Bang-dara)

Muhammad  saleem
0
Jawab e Shikwa


جواب شکوہ ڈاکٹر علامہ اقبال

 اردو ترجمہ کے ساتھ (بانگ درہ)


(Stanza 1)


(Stanza 2)

(Stanza 3)



(Stanza 4)

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

(Stanza 5)




(Stanza 6)

۔

(Stanza 7)





(Stanza 8)





(Stanza 9)




(Stanza 10)

۔


(Stanza 11)


(Stanza 12)

(Stanza 13)

(Stanza 14)


کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار

ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بے زار

قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں

کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں

(Stanza 15)



جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریب

زحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب

نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا تو غریب

پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا تو غریب

امرا نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

(Stanza 16)


واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی

برق طبعی نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

(Stanza 17)


شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود

ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو

تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

(Stanza 18)


دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک

عدل اس کا تھا قوی لوث مراعات سے پاک

شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نمناک

تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک

خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود

خالی از خویش شدن صورت مینا یش بود

(Stanza 19)


ہر مسلماں رگ باطل کے لیے نشتر تھا

اس کے آئینۂ ہستی میں عمل جوہر تھا

جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا

ہے تمہیں موت کا ڈر اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو

پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو


(Stanza 20)


ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے

تم مسلماں ہو یہ انداز مسلمانی ہے


حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے

تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر

اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

(Stanza 21)


تم ہو آپس میں غضب ناک وہ آپس میں رحیم

تم خطا کار و خطا بیں وہ خطا پوش و کریم


چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم

پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم


تخت فغفور بھی ان کا تھا سریر کے بھی

یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی

(Stanza 22)


خودکشی شیوہ تمہارا وہ غیور و خوددار

تم اخوت سے گریزاں وہ اخوت پہ نثار

تم ہو گفتار سراپا وہ سراپا کردار

تم ترستے ہو کلی کو وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی

نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

(Stanza 23)


مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے

بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

(Stanza 24)


قیس زحمت کش تنہائی صحرا نہ رہے

شہر کی کھائے ہوا بادیہ پیما نہ رہے

وہ تو دیوانہ ہے بستی میں رہے یا نہ رہے

یہ ضروری ہے حجاب رخ لیلا نہ رہے

گلۂ جور نہ ہو شکوۂ بیداد نہ ہو

عشق آزاد ہے کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

(Stanza 25)


عہد نو برق ہے آتش زن ہر خرمن ہے

ا  یمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے


اس نئی آگ کا اقوام کہن ایندھن ہے

ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

(Stanza 26)


دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی

کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی


خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی

گل بر انداز ہے خون شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے

یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

(Stanza 27)



امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں

اور محروم ثمر بھی ہیں خزاں دیدہ بھی ہیں



سیکڑوں نخل ہیں کاہیدہ بھی بالیدہ بھی ہیں

سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں


نخل اسلام نمونہ ہے برومندی کا


پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

(Stanza 28)

پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا

تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا

قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا

غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا


نخل شمع استی و در شعلہ دو ریشۂ تو

عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

(Stanza 29)


تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے


ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتئ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے

عصر نو رات ہے دھندلا سا ستارا تو ہے

(Stanza 30)


ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا

غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا

تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا

امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے

نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

(Stanza 31)


چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری

ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری

زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری

کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

وقت فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے

نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

(Stanza 32)


مثل بو قید ہے غنچے میں پریشاں ہو جا

رخت بر دوش ہوائے چمنستاں ہو جا


ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا

نغمۂ موج ہے ہنگامۂ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

(Stanza 33)


ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو

چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو

یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو خم بھی نہ ہو

بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو تم بھی نہ ہو


خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے

نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

(Stanza 34)


دشت میں دامن کہسار میں میدان میں ہے

بحر میں موج کی آغوش میں طوفان میں ہے

چین کے شہر مراقش کے بیابان میں ہے

اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعت شان رفانہ لا کا ذکر‘   دیکھے

(Stanza 35)


مردم چشم زمیں یعنی وہ کالی دنیا

وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا

گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا

عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح

غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

(Stanza 36)


عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری

مرے درویش خلافت ہے جہانگیر تری

ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری

تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)  سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں


یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

ایم اے ایف سلیم



Post a Comment

0Comments

Post a Comment (0)